Popular Posts

Saturday, December 19, 2020

پیراگراف نمبر3 سبق چغل خور


 سبق:چغل خور

پیراگراف نمبر3
اقتباس: 
گاؤں کے تمام لوگ اس سے اچھی طرح ۔۔۔۔۔۔ کہیں اور چل کر قسمت آزمائی کرنی چاہیے۔
حوالۂ متن:
سبق کا عنوان:   چغل خور
مصنف کا نام: شفیع عقیل
صنف: لوک داستان
ماخذ: پنجابی لوک داستانیں
خط کشیدہ الفاظ کے معانی
واقف ۔۔۔۔ آگاہ۔
منھ نہ لگانا ۔۔۔۔ واسطہ نہ رکھنا، توجہ نہ دینا۔
مسلسل ۔۔۔۔ لگاتار، پے در پے۔
تنگ آنا ۔۔۔۔ عاجز آنا، اکتا جانا۔
فاقوں نوبت آنا ۔۔۔۔ بھوکا رہنا، گزران نہ ہونا۔
قسمت آزمائی ۔۔۔۔ مقدر آزمانا، کوشش کرنا۔
سیاق و سباق:
           تشریح طلب اقتباس درسی سبق "چغل خور" کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ کسی گاؤں میں چغل خور رہتا تھا۔ دوسروں کی چغلی کھانا اس کی عادت تھی۔ اپنی اس بری عادت کی وجہ سے وہ ملازمت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ در در کی خاک چھاننے کے باوجود کوئی بھی اسے دوبارہ ملازمت دینے کےلیے تیار نہ ہوا۔ بالآخر وہ اپنا تھوڑا بہت ضروری سامان لے کر کسی دوسرے گاؤں یا شہر مزدوری کی تلاش میں نکل پڑا۔
تشریح :     
                      لوک داستان کسی معاشرے ، تہدیب اور ثقافت کی ایسی کہانی ہوتی ہے جو سینہ بہ سینہ سفر کرتے ہوئے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے۔ اس کے مصنف کا کوئی پتا نہیں ہوتا۔ اردو کے نامور ادیب شفیع عقیل نے مختلف تہذیب و ثقافت سے تعلق رکھنے والی  لوک داستانوں کے اردو تراجم کرکےبڑی علمی و ادبی اور ثقافتی خدمات سرانجام دیں۔" چغل خور " بھی ایسی ہی لوک داستان ہے جس میں چغل خوری کے نقصان اور اس کے معاشرے پر پڑنے والے گہرے اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔
                 تشریح طلب اقتباس میں مصنف چغل خور کی بری عادت کی وجہ سے اس کو ہونے نقصان کے متعلق بیان کرتا ہے کہ چغل خور کی چغلی خوری جیسی بری عادت سے گاؤں کے تمام لوگ اچھی طرح آگاہ ہوچکے تھے اس لیے وہ اس سے کسی قسم کا تعلق رکھنے کو تیار نہیں تھے۔ بقول شاعر:
  ؎ چغلی نکال کر زبان سے عجب کھیل دکھائے
      انسانوں کے رشتوں میں اک دراڑ سی پڑ جائے
                 چغل خور اپنی بری خصلت کی وجہ سے ہر جگہ سے دھتکار دیا جاتا تھا۔وہ ملازمت اور مزدوری کی تلاش میں جہاں بھی جاتا ناکامی اور مایوسی اس کا مقدر بنتی تھی۔ وہ کہیں کام نہ ملنے اور پے درپے  ناکامیوں کی وجہ سے تنگ ہوکر رہ گیا تھا۔اس کی حالت اب یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ وہ دو وقت کی روٹی کےلیے ترسنے لگا۔ جیسا کہ ایک قول ہے:
دوسروں کا برا سوچنے والا خود بھی کبھی خوش نہیں رہ سکتا"۔
چغل خور کو مکمل ادراک ہوچکا تھا کہ اس گاؤں میں اب کوئی اس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ہر کوئی اس کی بری عادت سے تنگ آیا ہوا ہے۔ اس لیے اس نے دل میں سوچا کہ اس گاؤں کو چھوڑ کر کسی اور علاقے میں جاکر اپنا مقدر آزمانا چاہیے۔ اگر یہاں نہیں تو کہیں اور کام مل ہی جائے گا۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے:
     "  امید پر دنیا قائم ہے"۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...