Popular Posts

Saturday, December 19, 2020

پیراگراف نمبر4 سبق چغل خور


 سبق: چغل خور

پیراگراف نمبر4
اقتباس:
اتفاق کی بات ہے کہ وہ کسان اکیلا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔میرا بھی کام ہلکا ہوجائے گا۔
حوالۂ متن:
سبق کا عنوان: چغل خور
مصنف کانام: شفیع عقیل
صنف: لوک داستان
ماخذ: پنجابی لوک داستان
خط کشیدہ الفاظ کے معانی:
اتفاق ۔۔۔۔ اچانک ، غیر متوقع طور پر۔
اکیلا ۔۔۔۔ تنہا۔
کام کاج ۔۔۔۔ روزمرہ کے امور۔
ہاتھ بٹانا ۔۔۔۔ مدد کرنا۔
ضرورت ۔۔۔۔ مانگ، طلب ۔
ملازم ۔۔۔۔ نوکر۔
ضرورت مند ۔۔۔۔حاجت مند، طلب گار۔
کام ہلکا ہونا ۔۔۔۔ کام بٹ جانا۔
سیاق و سباق:
           تشریح طلب اقتباس درسی سبق " چغل خور " کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ چغل خور کو چغل خوری جیسی بری عادت کی وجہ سے گاؤں میں کوئی ملازمت رکھنے پر تیار نہ تھا۔ اس نے در در کی خاک چھانی مگر کسی نے منھ نہ لگایا۔ وہ اپنا گاؤں چھوڑ کر کسی دوسرے گاؤں پہنچا اور ایک کسان کے پاس جاکر کہا کہ مجھے آپ اپنا ملازم رکھ لیں۔ کسان اکیلا تھا اسے ملازم کی ضرورت تھی۔ اس نے ملازم رکھنے کی حامی بھرتے ہوئے تنخواہ پوچھی تو چغل خور نے کہا کہ مجھے کوئی تنخواہ نہیں چاہیے۔ میں  صرف روٹی، کپڑا اور چھے ماہ بعد ایک چغلی کھانے کی اجازت چاہتا ہوں۔
تشریح:
                             لوک داستان کسی معاشرے ، تہدیب اور ثقافت کی ایسی کہانی ہوتی ہے جو سینہ بہ سینہ سفر کرتے ہوئے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے۔ اس کے مصنف کا کوئی پتا نہیں ہوتا۔ اردو کے نامور ادیب شفیع عقیل نے مختلف تہذیب و ثقافت سے تعلق رکھنے والی  لوک داستانوں کے اردو تراجم کرکےبڑی علمی و ادبی اور ثقافتی خدمات سرانجام دیں۔" چغل خور " بھی ایسی ہی لوک داستان ہے جس میں چغل خوری کے نقصان اور اس کے معاشرے پر پڑنے والے گہرے اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔
             تشریح طلب اقتباس میں مصنف اس چغل خور کے بارے میں بتاتا ہے جس کی چغل خوری جیسی بری عادت کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں نے اسے ملازمت دینےسے انکار کردیا۔وہ دوسرے گاؤں میں ایک کسان کے پاس پہنچ گیا۔اس نے کسان سے درخواست کی کہ وہ اسے اپنا ملازم رکھ لے۔وہ کسان اکیلا تھا ۔ کھیتوں کا سارا کام اسے تنہا کرنا پڑتا تھا۔ کسان کے کام کاج میں اس کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا اس لیے اسے ہمیشہ ایک ملازم کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔
                  کسان نے دل میں سوچا کہ کام کاج کی کثرت کی وجہ سے مجھے ایک ملازم کی ضرورت تو ہے ہی تو کیوں نہ اسی کو اپنا ملازم رکھ لوں۔ یہ حاجت مند بن کر میرے پاس آیا ہے تو کیوں نہ اس کی ضرورت بھی پوری کردوں۔ اسے ملازم رکھ لوں  تو اس سے اس کی حاجت روائی بھی ہوجائے گی اور   اپنا کام بھی بٹ جائے گا۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
"  جو کسی انسان کی حاجت پوری کرتا ہے ، اللہ تعالی اس کی حاجت پوری کرتا ہے۔ (ابوداؤد سے روایت)
اور بقول اقبال
      ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
        آتے ہیں جو کام دوسروں کے

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...