Popular Posts

Saturday, November 21, 2020

پیراگراف نمبر9 مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ


 

سبق: مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ
پیراگراف نمبر9
اقتباس :
آخر تمھیں میں نے پکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تمھاری خیریت دریافت کرنی تھی۔
حوالۂ متن: 
سبق کا عنوان: مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ
مصنف کا نام: سجاد حیدر یلدرم
صنف: مضمون
ماخذ: خیالستان
خط کشیدہ الفاظ کے معانی:
حرج ۔۔۔۔ نقصان۔
طبیعت ۔۔۔۔ مزاج، حالت۔
واللہ ۔۔۔۔ اللہ کی قسم۔
مضمون نگار ۔۔۔۔ مضمون لکھنے والا۔
لقب ۔۔۔۔ صفاتی نام۔
خیریت ۔۔۔۔ سلامتی، بہتری۔
دریافت کرنا ۔۔۔۔ پوچھنا۔
خداحافظ ۔۔۔۔ اللہ نگہبان۔
سیاق و سباق: 
تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ " کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے کہ میرا دوست احمد مرزا جب مجھ سے ملنے آتا ہے تو اودھم مچا کر آتا ہے۔ دروازہ اس زور سے کھولتا ہے جیسے آندھی آگئی ہو۔ جب جانے لگتا ہے تو مصافحہ کرتے وقت اس قدر زور سے میرے ہاتھ دباتا ہے کہ پھر وہ ہاتھ لکھنے کےلیے قلم بھی نہیں پکڑ سکتا۔
تشریح:
  سجاد حیدر یلدرم اردو ادب کے نامور مصنف اور افسانہ نگار تھے۔ان کے افسانوں میں رومانیت کا رنگ غالب ہوتا ہے اور یہ انشائے لطیف کا بھی عمدہ نمونہ ہیں۔ ایسا ہی ان کا افسانہ "مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" ہے جس میں وہ اپنے مخلص دوستوں سے عاجز نظر آتے ہیں اور انھیں ہر صورت چھوڑ دینے کے درپے ہیں۔
         تشریح طلب اقتباس میں مصنف اپنے شوخ مزاج دوست احمد مرزا کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ جب بھی مجھ سے ملنے کےلیے آتا ہے تو کمرے میں آندھی کی طرح آتا ہے اور نہایت پُر مسرت لہجے میں شور مچاتا ہے کہ میں نے بالآخر تمھیں تلاش کر ہی لیا ہے۔ اس دوران میں مضمون لکھ رہا ہوتا ہوں تو کہتا ہے کہ میری وجہ سے اپنا لکھنے کا کام مت بند کرنا بلکہ اپنا لکھنا جاری رکھو کیونکہ میں تمھارے لکھنے میں خلل ڈال کر تمھارا نقصان کرنے نہیں آیا۔ تم ہر وقت لکھتے ہی رہتے ہو اور اس قدر لکھتے ہو کہ اللہ ہی پناہ دے۔ تم لکھنے سے تو تھکتے بھی نہیں ہو۔
مصنف کہتا ہے کہ یہ سب کہنے کے بعد وہ میری خیریت پوچھتا ہے اور کہتا ہے کہ میری آمد کا مقصد ہی تمھاری طبیعت اور تمھاری خیریت کے بارے میں آگاہی چاہنا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر مجھ سے اپنی دوستی پر ناز کرتا ہے اور کہتا ہےکہ میں اس پر خوشی محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ نازاں بھی ہوں کہ میرے دوستوں میں تم واحد ایسے دوست ہو جسے لوگ مضمون نگار کےطور پر جانتے ہیں۔ خوشی ہے کہ مجھے تم جیسا ادبی دوست ملا ہے۔ یہ سب کچھ کہنے کے بعد وہ فوراً جانے کو تیار ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں یہاں بالکل بھی نہیں رکوں گا۔بس ایک منٹ کےلیے آیا تھا اور تمھاری خیریت معلوم کرنا مقصود تھا۔اس لیے اب چلتا ہوں۔ اللہ تمھارا حامی و ناصر ہو۔
بقول شاعر: 
   ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
یا
دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...