Popular Posts

Wednesday, November 18, 2020

پیراگراف نمبر5سبق مجھے میرے دوستوں ےے بچاؤ


 

سبق: مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ
پیراگراف نمبر5
اقتباس: بھائی جان! دیکھو پرانی دوستی۔۔۔۔۔۔۔ میں نحیف و نزار ہوں۔
حوالہ متن: 
سبق کا عنوان: مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ
مصنف کا نام: سجاد حیدر یلدرم
صنف: مضمون
ماخذ: خیالستان
خط کشیدہ الفاظ کے معانی:
واسطہ ۔۔۔۔ تعلق، دہائی دینا۔
احباب ۔۔۔۔ حبیب کی جمع، دوست۔
قرض ۔۔۔۔ ادھار۔
بےوقت ۔۔۔۔ بے موقع محل کے۔
جھونکے ۔۔۔۔ لہریں
نیند کے جھونکے ۔۔۔۔ خماری آنا، نیند آنا۔
قصہ ۔۔۔۔ کہانی، واقعہ۔
لطیفہ ۔۔۔۔ پُرمزاح بات۔
تصنیف ۔۔۔۔  کتاب لکھنا۔
خواہ مخواہ ۔۔۔۔ بغیر وجہ کے، فضول میں۔
ریویو ۔۔۔۔ تبصرہ، رائے دینا۔
ہوحق کرنا ۔۔۔۔ شورغل کرنا۔
شکایت ۔۔۔۔ گلہ شکوہ۔
تعجب ۔۔۔۔ حیرانی۔
ہٹاکٹا ۔۔۔۔ صحت مند۔
نحیف و نزار ۔۔۔۔ دبلا پتلا، کمزور و ناتواں۔
سیاق و سباق:
       تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" کے تقریباً ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف  دلی کے چاندنی چوک میں صدا لگاتے فقیر کے متعلق بیان کرتا ہے کہ اگر واقعی اس کا کوئی دوست نہیں تو یہ بہت خوش قسمت ہے اور یہیں وہ مجھ سے بڑھ گیا۔ کیا واقعی اس کا ایسا کوئی دوست نہیں جو اسے پانچ منٹ کی فرصت نہ دے۔ مجھے تو اپنے دوستوں کی وجہ سے اتنا بھی یقین نہیں آتا کہ تخلیے میں اپنے خیالات جمع کرکے اطمینان سے کچھ قلم بند کرسکوں گا یا نہیں۔ اگر اس کا سچ مچ کوئی دوست نہیں تو یہ اس کےلیے کسی نعمت سے کم نہیں اور اس پر اسے اللہ کا شکر ادا کرناچاہیے۔
تشریح:
          سجاد حیدر یلدرم اردو ادب کے نامور مصنف اور افسانہ نگار تھے۔ان کے افسانوں میں رومانیت کا رنگ غالب ہوتا ہے اور یہ انشائے لطیف کا بھی عمدہ نمونہ ہیں۔ ایسا ہی ان کا افسانہ "مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" ہے جس میں وہ اپنے مخلص دوستوں سے عاجز نظر آتے ہیں اور انھیں ہر صورت چھوڑ دینے کے درپے ہیں۔
      تشریح طلب اقتباس میں مصنف چاندنی چوک میں موجود فقیر کے دوست نہ ہونے کے دعوے کو اس کی خوش قسمتی گردانتے ہوئے کہتا ہے کہ کیا یہ فقیر دن دہاڑے اپنا روپیا پیسا اپنے دوستوں سے بچا کر لے جاسکتا ہے؟ کیا اس کا ایسا کوئی دوست نہیں جو اس سے رقم ادھار نہ مانگتے ہوئے یہ نہ کہے کہ بھائی تیری میری دوستی بہت پرانی ہے اور ہمارا باہم گہرا تعلق ہے تو میں اس دوستی اور تعلق کی بنیاد پر تم سے اپنی سخت ضرورت کے عوض کچھ رقم قرض کے طور پر مانگتا ہوں۔ گویا کہ:
" مال مفت دل بےرحم "۔
          ہمارے دوست جس طرح ہمیں بےموقع اور بےوقت کسی نہ کسی دعوت اور کسی تقریب میں زبردستی جانے پر مجبور کرتے ہیں کیا فقیر کو کوئی ایسے مجبور نہیں کرتا؟ کیا وہ ایسے دوستوں سے بچا ہوا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ اس کےلیے غنیمت ہے۔ہمارے دوست تو ایسے ہیں جو سخت تھکاوٹ کے عالم اورنیند کی سخت طلب کے باوجود دوستوں کی محفل سے اٹھنے نہیں دیتے اور قصے، کہانیاں اور لطیفے سناتے رہتے ہیں مگر آرام کرنے کےلیے نہیں اٹھتے اور نہ کسی کے آرام کا خیال رکھتے ہیں۔ بقول شاعر:
؎ دوستوں سے ملاقات کی شام ہے
یہ سزا کاٹ کے اپنے گھر جاؤں گا
اگر فقیر کے ایسے کوئی دوست نہیں تو وہ اس سے بڑھ کر اور کیا چاہتا ہے؟ ہمیں اپنے دوستوں کو خط لکھنے پڑتے ہیں اور ان کے خطوط کا جواب بھی دینا پڑتا ہے۔ بعض اوقات اپنے کسی عزیز دوست کی لکھی ہوئی کتاب بھی طبیعت کے نہ چاہنے کے باوجود محض اس کی خواہش پر زبردستی پڑھنی پڑتی ہے اور اس پر تنقیدی جائزہ بھی اس کی تاکید کی وجہ سے لکھنا پڑتا ہے۔ ہمیں دوستوں کی محفل میں بلاوجہ اور صرف تفریح کےلیے شورغل بھی کرنا پڑتا ہے۔ اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر دوستوں سے ملنے جانا ہماری مجبوری ہوتا ہے کیونکہ نہ جانے کی صورت میں ان کی طرف سے گلے شکوے ہوتے ہیں اور ان کی ناراضی مول لینی پڑتی ہے۔
            اگر فقیر ان تمام باتوں سے آزاد ہے تو وہ اس سے بڑھ کر اپنے لیے اور کون سی نعمت چاہتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اسے دوستوں کی جھنجھٹ سے آزاد کیا ہوا ہے اور قابلِ رشک صحت بھی عطا کی ہوئی ہے۔وہ جسمانی طور پر مضبوط اور توانا بھی ہے جبکہ میں کمزور اور ناتواں ہوں اور مجھے دوستوں کی وجہ سے مشکلات بھی درپیش ہیں جس سے فقیر یکسر آزاد ہے تو وہ اس سے بڑھ کر اور کیا  چاہتا ہے؟ اسے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ بقول شاعر:
 ؎ دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں
      دوستوں کی مہربانی چاہیے





No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...