03065976174 سبق: خطوطِ غاؔلب aufsurani.blogspot.com
پیراگراف نمبر3
اقتباس:
کیوں صاحب! کیا یہ آئین جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گفتگوئے می کنم۔
حوالۂ متن:
سبق کا عنوان: خطوطِ غاؔلب
مصنف کا نام: مرزا اسداللہ خاں غاؔلب
صنف: مکتوب نگاری
ماخذ: غاؔلب کے خطوط
مرتب کردہ: ڈاکٹر خلیق انجم
خط کشیدہ الفاظ کے معانی:
آئین ۔۔۔۔۔ قانون، دستور۔ خاک نشین ۔۔۔۔۔ بسنے والے، زمین پر رہنے والے۔
اشتہار ۔۔۔۔۔ اعلان، منادی۔ زنہار ۔۔۔۔۔ ہرگز۔
بہ ہرحال ۔۔۔۔۔ پھر بھی۔ بشنود ۔۔۔۔۔ کوئی سنے۔
نشنود ۔۔۔۔۔ نہ سنے۔ من گفتگوئے می کنم ۔۔۔۔۔۔ میں اپنی بات کہ دیتا ہوں۔
تشریح:
مرزااسداللہ خان غاؔلب اردو اور فارسی ادب کے بےتاج بادشاہ تھے۔وہ بلند پایہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ طرز نثر نگار بھی تھے۔انھوں نے ہم عصروں اور اپنے دوستوں کو بےشمار خطوط لکھے۔مکتوب نگاری میں انھوں نے الگ راہ نکالی۔رسمی انداز ترک کرکے اپنے خطوط میں جدت کا رنگ بھرا۔وہ خود کہتے ہیں میں نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔
تشریح طلب اقتباس مرزاغاؔلب کے دوسرے خط کا ابتدائیہ ہے۔ یہ خط انھوں نے اپنے عزیز شاگرد اور دوست منشی ہرگوپال تفؔتہ کے نام لکھا۔مرزا غاؔلب نے 3نومبر1858ء بروز بدھ کو بنام تفؔتہ پہلا خط لکھا تھا۔تفؔتہ نے اس کا جواب نہ دیا۔دس دن بعد 13نومبر1858ء بروز ہفتہ کو غالؔب نے تفؔتہ کو دوسرا خط تحریر کیا۔اس خط میں انھوں نے خط کا جواب نہ دینے پر اعتراض کیا۔انھوں نے تفؔتہ کو طنزاً شکایت کرتے ہوئے لکھا کہ اے صاحب! کیا آپ کے ہاں سکندرآباد میں کوئی نیا قانون جاری ہوا ہے کہ سکندرآباد کے رہنے والے ہم دلی میں بسنے والوں کو خط نہ لکھیں۔
اگر واقعی ایسا کوئی قانون جاری کیا گیا ہوتا تو اس کا اطلاق صرف سکندرآباد والوں پر نہ ہوتا بلکہ ہم دِلیّ والوں کو بھی احکامات جاری کیے جاتے کہ آپ نے بھی دِلیّ سے کوئی خط سکندرآباد کی طرف ہرگز نہیں بھیجنا۔بھلے کوئی ہماری بات سنتا ہے یا نہیں سنتا۔جواب دیتا ہے یا نہیں دیتا مگر ہم تو اپنی بات کہے دیتے ہیں۔ بقول غاؔلب:
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمھارے نام کے
------------------------------ ------------------------------ ------------------------------ ---
محمدامیرعمرفاروق سہرانی 03065976174 aufsurani.blogspot.com
No comments:
Post a Comment