Saturday, January 25, 2020

جماعت نہم اردو سبق ” قدرایاز“ تشریح پیراگراف نمبر7


سبق: قدر ایاز

پیراگراف نمبر7


اقتباس:

ایک لڑکا تھا جو اپنے گاٶں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ستھن تے کڑیاں پاٶندیاں نیں۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان:  قدر ایاز

مصنف کانام:  کرنل محمد خان


خط کشیدہ الفاظ کے معانی


پراٸمری۔۔۔۔۔۔پنجم جماعت تک کی تعلیم

ٹھیٹھ ۔۔۔۔۔۔ خالص

صافہ۔۔۔۔۔ سر کا کپڑا۔

کرتا۔۔۔۔۔۔۔ بغیر کالر اور بغیر کف والی قمیص

تہمد۔۔۔۔۔۔۔۔ دھوتی،تہبند

ہلکی۔۔۔۔۔۔۔ نرم 

کڑیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑکیاں


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” قدر ایاز“ کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ علی بخش سلیم میاں کی شکایت لے کر مصنف کے پاس گیا تو مصنف نے سلیم اور علی بخش کا معاملہ سنااور ان کے تنازعہ کو معمولی قرار دیتے ہوٸے انھیں ایک دیہاتی لڑکے کا قصہ سنایا جو بہت سادہ اور ٹھیٹھ دیہاتی تھا۔


تشریح:

مصنف کرنل محمد خان اردو کے ممتاز مزاح نگار تھے۔انھوں نے فوج کی ملازمت کے حوالے سے بہت سے مضامین لکھے۔ان کے طرز تحریر میں یہ خوبی ملتی ہے کہ وہ اپنی تحریر میں جس ماحول کی تصویر کشی کرتے ہیں اس کو پڑھنے والا خود کو اسی ماحول میں محسوس کرتا  ہے۔” قدر ایاز“ ان کی ایسی ہی ایک تحریر ہے جس میں انھوں نے دیہاتیوں کے سادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کیا ہے۔

               تشریح طلب اقتباس میں مصنف  سلیم میاں اور علی بخش کی باہمی ناراضی اور رنجش کو ختم کرنے کےلیے انھیں ایک دیہاتی لڑکے کا قصہ سناتے ہوٸے کہتا ہے کہ ایک دیہاتی لڑکا اپنے گاٶں سے پنجم جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد ہشتم  سے دہم تک کی تعلیم حاصل کرنے کےلیے شہر کے سکول میں جاکر داخل ہوا کیونکہ اس زمانے میں گاٶں میں  جماعت دہم تک کی تعلیم کےلیے سکول موجود نہیں ہوتے تھے۔وہ لڑکا اپنے گاٶں میں ایک چھوٹے سے چودھری کا بیٹا تھا اس وجہ سے یہ خود بھی چودھری کہلایا جاتا تھا اور دیہاتی طرز زندگی گزارنے کی وجہ سے اس کے عادات و خصاٸل بھی خالصتاً دیہاتی تھے۔

              وہ لڑکا جب شہر کے سکول میں پہلے دن اپنی جماعت میں داخل ہوا تو دیہاتی رہن سہن کے مطابق اس نے سر پر پگڑی، جسم پر کرتا اور پاٶں میں پوٹھوہاری کھسہ پہنا ہوا تھا اور ہر زاویے سے مکمل دیہاتی الگ رہا تھا۔

               ماسٹر صاحب نے  سکول کے ماحول کے مطابق اسے تہمد کی جگہ آٸندہ شلوار پہن کر آنے کی تاکید کی تو وہ نرم لہجے میں کہنے لگا کہ اے میرے خدا یہ ماسٹر جی کیا کہ رہے ہیں شلوار کیسے پہن کے آٶں۔ ہمارے دیہات میں شلوار تو لڑکیاں پہنتی ہیں۔ ہم مرد تو یہی لباس پہنتے ہیں۔ بقول شاعر


واہ  رے  دیہات  کے  سادہ   تمدن  کی  بہار

سادگی میں بھی ہے کیا کیا تیرا دامن زرنگار

Saturday, January 18, 2020

جماعت نہم اردو سبق”قدر ایاز“ تشریح پیراگراف نمبر8


سبق: قدر ایاز

پیراگراف نمبر8

اقتباس:

سلیم پوری بات پوری طرح سمجھے بغیر ہنس دیے۔۔۔۔۔۔۔آدمی خوش مزاج تھے۔

حوالہ متن:

سبق کا عنوان: قدر ایاز

مصنف کا نام: کرنل محمد خان

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

مسکرایا۔۔۔۔۔ہنسا

پتلون پوش۔۔۔۔۔پتلون پہنے ہوٸے۔

خال خال۔۔۔۔۔۔بہت کم

جنٹل مین۔۔۔۔۔۔شریف آدمی

رشک۔۔۔۔۔۔ کسی کی طرح بننے کی خواہش رکھنا۔

خوش مزاج۔۔۔۔۔۔اچھے مزاج والا، خوش طبع۔

خواہش۔۔۔۔۔۔ تمنا، آرزو

سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق” قدر ایاز“ کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف سلیم اور علی بخش کی باہمی رنجش کو ختم کرنے کےلیے انھیں ایک دیہاتی لڑکے کی کہانی سناتا ہے کہ ایک دیہاتی لڑکا سادہ دیہاتی لباس پہن کر شہر کے سکول میں داخلہ لیتا ہے جہاں کے ایک سیکنڈ ماسٹر اچھے اخلاق کے مالک اور شکار کے شوقین تھے۔ایک دن وہ شکار کرتے کرتے اس دیہاتی لڑکے کے گاٶں پہنچ گٸے۔

تشریح:

کرنل محمد خان اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار تھے۔انھوں نے اپنی فوج کی ملازمت سے وابستگی پر بہت سے مضامین لکھے۔ان کے طرز تحریر میں یہ خوبی ملتی ہے کہ وہ اپنی تحریر میں جس ماحول کی منظر کشی کرتے ہیں اسے پڑھنے والا خود کو بھی اسی ماحول میں محسوس کرتا ہے۔" قدر ایاز“ان کی ایسی ہی تحریر ہےجس میں وہ دیہاتیوں کے سادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کرتے ہیں ۔

            تشریح طلب اقتباس میں مصنف کرنل محمد خان   سلیم اور علی بخش کی باہمی رنجش کو ختم کرواتے ہوٸے اور انھیں ایک دیہاتی لڑکے کی کہانی سناتے ہوٸے جب  یہ کہتا ہے کہ چالیس برس پہلے اگر ماسٹر جی بھی پتلون پہن لیتے تو شہر کے کتے اسے ولایت پہنچا آتے تو سلیم کو ان کی یہ بات پوری طرح سمجھ نہ آٸی پھر بھی وہ اس پرمزاح بات پر ہنس پڑا جبکہ بوڑھا ملازم علی بخش جوکہ زیرک اور تجربہ کار تھا، وہ بات کو مکمل طور پر سمجھ گیا اور مسکرا اٹھا۔

         مصنف نے کہانی سنانا جاری رکھا اور کہا کہ ان گٸے دنوں میں پینٹ پتلون پہننے والے بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتے تھے۔ شہر کے پورےسکول میں ایک سیکنڈ ہیڈماسٹر صاحب تھے جو انگریزی سوٹ پہنتے تھے۔ان دنوں ایسا لباس پہننا بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔اس لیے لڑکے انھیں جینٹل مین یعنی بھلے مانس کہ کر بلاتے تھے۔وہ لاہور میں رہتے تھے اور تعلیم بھی انھوں نے وہیں سے حاصل کی تھی۔ اپنے لباس اور شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوٸے وہ اپنی گفتگو کے دوران ہر جملے میں دو تین الفاظ انگریزی زبان کے ضرور استعمال کرتے تھے اس لیے لڑکے ان سے بہت متاثر تھے اور دل ہی دل میں ان جیسا ہونے کی خواہش رکھتے تھے۔وہ ان کے بہت قدردان تھے اور کیوں نہ ہوتے کہ وہ آدمی بھی بااخلاق اور خوش طبع تھے۔  جیساکہ قول ہے:

” خوش خلقی انسان کے کردار کو عظیم بناتی ہے“۔

Thursday, January 16, 2020

جماعت نہم اردو سبق” قدر ایاز“ تشریح پیراگراف نمبر 6


سبق: قدر ایاز

پیراگراف نمبر6


اقتباس:

ہمارے نزدیک دیہاتی ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دیہاتی کا قصہ سنانے لگے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: قدر ایاز

مصنف کا نام: کرنل محمد خان


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔


ناقابل برداشت۔۔۔۔۔۔جسے سہا نہ جاسکے

قباحت۔۔۔۔براٸی

فضاٸل۔۔۔۔۔خوبیاں،اچھاٸیاں، عنایتیں

بلاغت۔۔۔۔۔۔فصاحت، منطقی دلاٸل

باہم۔۔۔۔آپس میں


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق” قدر ایاز“ کے درمیان سے اخذ کیاگیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے کہ علی بخش اور سلیم میاں کا تنازع معمولی تھا جوکہ ایک چاٸے کی پیالی میں سما سکتا تھا۔اس لیے ان کی صلح کےلیے میں نے انھیں ایک دیہاتی کا قصہ سنانا شروع کردیا۔


تشریح:

کرنل محمد خان اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار ہیں۔انھوں نے فوج کی ملازمت سے وابستگی کے حوالے بہت سے مضامین لکھے۔ان کے طرز تحریر میں یہ خوبی ملتی ہے کہ وہ اپنی تحریر میں جس ماحول کی منظرکشی کرتے ہیں اسے پڑھنے والا خود کو اسی ماحول میں محسوس کرتا ہے۔” قدر ایاز“ان کی ایسی ہی تحریر ہے جس میں وہ دیہاتیوں کے سادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کرتے ہیں۔

           تشریح طلب اقتباس میں مصنف سلیم اور علی بخش کی باہمی رنجش کے حوالے سے بتاتا ہے کہ سلیم اور علی بخش دونوں خود کو دیہاتی قرار دیے جانے پر ایک دوسرے سے خفا تھے جبکہ میرے نزدیک دیہاتی ہونے یا دیہاتی قرار دیے جانے میں ایسی کوٸی براٸی نہیں تھی جسے برداشت نہ کیا جاسکے اس لیے میں ان کی اس حوالے سے ناراضی دور کرنا چاہتا تھا۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:



”تم میں سے کسی پر اپنے مسلمان بھاٸی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی جاٸز نہیں“۔


            مصنف کہتا ہے کہ اسی بات کے پیش نظر میں نے سلیم اور علی بخش کی باہمی رنجش اور ناراضی دور کرنے کےلیے ہنستے مسکراتے ہوٸے انھیں دیہاتیوں کی اچھاٸیاں اور خوبیاں سنانی شروع کر دیں۔میں نے دیہاتیوں کی اچھاٸیوں اور ان کی بہترین سادہ زندگی کو اس قدر فصاحت اور دلاٸل سے بیان کیا کہ علی بخش اور سلیم دونوں خوش ہوگٸے اور انھوں نے باہمی تلخی اور ناراضی ختم کر دی۔اپنا مقصد حاصل کر لینے کے ساتھ ہی میں نے انھیں ایک دیہاتی لڑکےکا قصہ بھی سنانا شروع کردیا۔

Friday, January 10, 2020

جماعت نہم اردو سبق" قدرایاز" تشریح پیراگراف نمبر4


سبق:  قدرایاز

پیراگراف نمبر4


اقتباس:

سلیم میاں جو ابھی..............اس کے ہاتھوں پلا تھا۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: قدر ایاز

مصنف کانام: کرنل محمد خان


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔


فارغ ہونا.......فراغت پانا، مصروفیت ختم ہونا

کرنیل زادے.......کرنیلوں کے بیٹے۔

ہمراہ......ساتھ

بےفکری....بعیرکسی پریشانی کے، بےغم ہوکر

بیڈمنٹن......ریکٹ،چھکا،شٹل یا چڑیا کی مدد سے کھیلا جانے والا ایک کھیل۔

سرشام......شام ہوتے ہی

جم جاتے......ٹھہر جاتے،ٹک جاتے

مجال..... جرآت

غیر.....بیگانہ

مشاہدہ......جانچ پرکھ، معائنہ

مخل ہونا......خلل ڈالنا،دخل اندازی کرنا،مداخلت کرنا

شریک ہونا.......شامل ہونا، شمولیت اختیار کرنا

تواضع.....خدمت گزاری، خاطر داری

خارج ہونا......نکلنا

انس.....محبت، لگاؤ، پیار

پلنا......نشوونما پانا، پرورش پانا


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" قدرایاز" کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہےاس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف بتاتا ہے کہ اس کا بیٹا سلیم میڑک کے امتحان کے بعد فراغت کی زندگی گزار رہا تھا۔وہ ہمارے خدمت گزار علی بخش کے ہاتھوں پلا تھا۔ایک بار علی بخش رونی صورت بنا کر سلیم کی شکایت لے کر میرے پاس آگیا۔


تشریح:

کرنل محمد خان  اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار ہیں۔ انھوں نے اپنی فوجی زندگی کے حوالے سے بہت سے مضامین لکھے۔ وہ اپنی تحریر میں  جس ماحول کی بھی تصویر کشی کرتے اسے پڑھنے والا خود کو اسی ماحول میں محسوس کرتا تھا۔" قدر ایاز" ان کی ایسی ہی تحریر ہے جس میں وہ دیہاتیوں کےسادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کرتے ہیں۔

        تشریح طلب اقتباس میں مصنف میڑک کے امتحان ہوجانےکےبعد سلیم میاں کی فراغت اور اس کے مشغلوں کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ جب میڑک کا امتحان دے چکا تو اسے مکمل فرصت اور فراغت مل گئی اور پڑھائی کی ذمّہ داری کا بوجھ اس کے سر سے اتر گیا اس لیے وہ دوسرے کرنیلوں کے صاحب زادوں کے ساتھ بےغم ہوکر سارا دن بیڈمنٹن کھیلتا تھا اور جب شام ہوجاتی تو اپنے دوستوں کے ساتھ  ٹیلی وژن دیکھتا رہتا تھا۔اس دوران کسی کو بھی اس کے کمرے میں داخل ہوکر اس کی سرگرمیوں میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی ایسی جرآت کرتاتھا کیونکہ وہ اس چیز کا بہت برا مناتا تھا۔

        مصنف کہتا ہے کہ علی بخش جوکہ ہمارا بوڑھا خدمت گزار تھا صرف وہی سلیم کے کمرے میں اس کی خاطر داری کی غرض سے آتا جاتا رہتا تھا۔اسے سلیم سے بہت لگاؤ اور پیار بھی تھا کیونکہ سلیم اسی کے ہاتھوں ہی پلا بڑھا تھا اور اس نے سلیم کی ہمیشہ خدمت کرکے اسے پالا پوسا تھا۔اس وجہ سے وہ سلیم سے انسیت اور چاہت کا رشتہ رکھتا تھا اور اس کے کمرے میں اس کی خاطر داری کی غرض سے آتا جاتا رہتا تھا۔   جیسا کہ کسی دانا کا قول ہے:


"انسان ایک ایسا شجر ہے جسے چاہت اور قربت کے موسم پروان چڑھاتے ہیں".

Thursday, January 9, 2020

جماعت نہم اردو سبق" قدرایاز" تشریح پیراگراف نمبر3


سبق: قدرایاز

پیراگراف نمبر3


اقتباس:

الغرض ہمارے بنگلے کا مزاج................مناسب فرنیچر بھی حاصل کرلیا۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: قدرایاز

مصنف کانام: کرنل محمد خان


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔


الغرض.......غرض یہ کہ، مقصد یہ ہے کہ

مزاج.......تیور، رویہ

زاویے....... پہلو، رخ

امیرانہ........دولت مندانہ،شان و شوکت والا

اثاثہ........ مال اسباب

تیور .......مزاج، رویہ 

ہر چند........  کسی قدر

خاکسارانہ .......عاجزانہ

شان..... قدر و قیمت

پیش نظر....... نظر کے سامنے

کارخیر.......اچھا کام

بیشتر.......زیادہ تر، اکثر

کباڑیہ..... کاٹھ کباڑ کا کام کرنے والا

علاوہ ازیں.......اس کے علاوہ


سیاق و سباق:

 تشریح طلب اقتباس درسی سبق" قدرایاز" کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف فوج کی طرف سے ملنے والے بنگلے کے بارے میں بتاتا ہے کہ اسے دیاگیا  بنگلہ شاہانہ طرز کا حامل تھا اور اس میں قالین وغیرہ بچھانےکےلیے مقامی کباڑیے کی مدد لی گئی۔


تشریح:

کرنل محمد خان اردو ادب کے نامور اور ممتاز مزاح نگار تھے۔ انھوں نے اپنی فوجی زندگی کے حوالے سے بہت سے مضامین لکھے۔ ان کے طرز تحریر میں یہ خوبی ملتی کہ وہ جس ماحول کی منظر کشی اپنی تحریر میں کرتے تھے اس کا قاری خود کو اسی ماحول میں محسوس کرتا تھا۔" قدر ایاز" ان کی ایسی ہی تحریر ہے جس میں وہ دیہاتیوں کے سادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کرتے ہیں۔

        تشریح طلب اقتباس میں مصنف اپنے بنگلے کے بارے میں وضاحت کرتا ہے جو انھیں کرنل کی حیثیت سے فوج کی طرف سے رہائش کےلیے دیا گیا تھا۔مصنف کہتا ہے کہ مجھے ملنے والا بنگلہ باقی کرنیلوں کے بنگلوں سے منفرد حیثیت کا حامل تھا کیونکہ وہ امیرانہ شان و شوکت رکھتا تھا اور اسے دیکھ کر ایسا  معلوم ہوتا تھا جیسے یہ کسی دولت مند اور امیر کبیر شخص کا بنگلہ ہے۔

            مصنف مزید واضح کرتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا تھی کہ اس نے شان و شوکت والا بنگلہ میرے نصیب میں کردیا ورنہ اس بنگلے کی شان و شوکت کے مقابلے میں میرے پاس وہ مال و دولت نہیں تھی جو اس بنگلے کی شان کے مطابق ہو۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:


"اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے عطا فرماتا ہے".


      مصنف بنگلے کے بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس  بنگلے کے امیرانہ مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے ایک مقامی کباڑیے کے تعاون اور اس کی مدد سے بنگلے کے ہر کمرے کےلیے ایک قالین یا دری حاصل کرلی تھی اور  بعد ازاں بنگلے کی مزید سجاوٹ اور تزئین کےلیے بہتر فر نیچر بھی حاصل کرلیا تاکہ اس کی شان و شوکت کو مزید برقرار رکھا جاسکے۔

Wednesday, January 8, 2020

جماعت نہم اردو سبق " قدر ایاز" تشریح پیراگراف نمبر2


سبق : قدر ایاز

پیراگراف نمبر2


اقتباس:

یہ بنگلہ کم و بیش دو ایکڑ .........سرخ و سپید گلاب کے پودے تھے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: قدر ایاز

مصنف کا نام: کرنل محمد خان


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

کم و بیش....تھوڑا اور زیادہ، لگ بھگ

قسام ازل......شروع دن سے قسمت بانٹنے والا مراد اللہ تعالیٰ

دوایکڑ.......سولہ کنال، چار بیگے

خاصا......عمدہ ،بہتر

قطعہ......ٹکڑا

شاہانہ..... شان و شوکت والا، پرعظمت

قطعہ زمین......زمین کا ٹکڑا

طول و عرض ......لمبائی چوڑائی

وسیع......کشادہ، کھلا

چمن......باغ

حاشیہ......کنارہ، کونہ

باڑ....... رکاوٹ

نیزوں......بہت اونچے

پیڑ......درخت

لہلہانا........لہرانا، جھومنا

جابجا... ۔۔۔ہرجگہ، قدم قدم پر

سپید......سفید


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" قدر ایاز" کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے۔اس کا سیاق وسباق یہ ہے کہ مصنف کو بطور کرنل فوج کی طرف سے ایک سی کلاس بنگلہ ملا۔ اس کے بارے میں مصنف کہتا ہے کہ وہ بنگلہ تمام بنگلوں سے نمایاں حیثیت رکھتا تھا اور کافی وسیع تھا جبکہ بنگلے کے مقابلے میں مصنف کے اثاثے کے تیور خاکسارانہ تھے۔


تشریح:

کرنل محمد خان اردو ادب کے ممتاز مزاح  نگار تھے۔انھوں نے اپنی فوجی دور کے حوالے سے بہت سے مضامین لکھے۔ ان کے طرز تحریر میں یہ خوبی ملتی ہے کہ وہ جس ماحول کی منظر کشی کرتے ہیں قاری خود کو  اسی ماحول میں ہی محسوس کرتا ہے۔" قدرایاز" ان کی ایسی ہی تحریر ہے جس میں انھوں نے دیہاتیوں  کے سادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کیا ہے۔

         تشریح طلب اقتباس میں مصنف فوج کی طرف سے ملنے والے بنگلے کی خصوصیات اجاگر کرتے ہیں جو انھیں  بطور کرنل خدمات سرانجام دینے پر ملا تھا۔ مصنف بتاتے ہیں کہ ولسن روڈ پر انھیں ملنے والا بنگلہ لگ بھگ سولہ کنال رقبے پر مشتمل تھا۔دوسرے لفظوں میں یہ بنگلہ بہت وسعت اور شان وشوکت کا حامل تھا۔

       بنگلے کے سامنے وسیع و عریض باغ تھا جس کے گرداگرد منہدی کے سبز پودے اگائے گئے تھے اور ان پودوں کے بالکل آگے سرو اور سفیدے کے اونچے اونچے درخت تھے جو ہمہ وقت ہوا کے جھونکوں سے لہلہاتے نظر آتے تھے۔اس کے علاؤہ اس وسیع باغ کے اندر سرخ اور سفید رنگ کے گلاب کے پھول بھی اگائے گئے تھے جو بنگلے اور باغ کی  خوب صورتی کو جلا بخش رہے تھے۔غرض یہ بنگلہ بہت شان و شوکت والا تھا جو مصنف کے نصیب میں ہی آیا اور یہ اللہ کی عطا تھی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

" اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے عطا فرماتا ہے"۔

Monday, January 6, 2020

جماعت دہم سبق " چغل خور" تشریح پیراگراف ۔



جماعت نہم اردو سبق "قدر ایاز" تشریح پیراگراف نمبر1


سبق: قدر ایاز

پیراگراف نمبر1


اقتباس:

کرنیلوں کو رہائش کے خاصے..............خاص طور پر اپنے لیے بنوایا تھا۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: قدر ایاز

مصنف کانام: کرنل محمد خان


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

کرنیل.....فوجی رجمنٹ کا اعلی افسر

سی کلاس........تیسرے درجے کا

خوش قسمتی...... خوش بختی، خوش نصیبی


بنگلہ........کوٹھی ،محل

انتخاب........چناہوا

امتیاز.......نمایاں حیثیت، خاص مقام حاصل ہونا

بیروں........بیرا کی جمع ،خدمت گزاروں

لاشریک......جس کا کوئی ثانی نہ ہو

رہائش......قیام پذیر ہونا

خاصے عمدہ.........بہترین، بہت اعلی

کلاس  .......درجہ


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" قدرایاز" کا ابتدائی پیراگراف ہے۔اس میں مصنف محکمہ فوج میں ملازمین کو ملنے والی مراعات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کرنیلوں کو رہائش کےلیے سی کلاس کے عمدہ بنگلے ملتے ہیں تو خوش قسمتی سے مجھے بھی ایسا ہی بنگلہ ملا جسے اللہ تعالیٰ نے شاہانہ طول و عرض بخشا تھا۔


تشریح: 

کرنل محمد خان اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار ہیں۔ انھوں نے اپنی فوجی زندگی کے حوالے سے بہت سے مضامین لکھے۔ان کے طرز تحریر میں یہ خوبی ملتی ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں  جس ماحول کی تصویر کشی کرتے ہیں اسے پڑھنے والا خود کو اسی ماحول میں ہی محسوس کرتاہے۔ " قدر ایاز" ان کی ایسی ہی ایک تحریر ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کی سادگی اور رعنائی کو پرخلوص انداز میں بیان کرتے ہیں۔

              تشریح طلب اقتباس میں مصنف محکمہ فوج میں ملازمین کو ملنے والی مراعات کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ فوج میں کرنل کا عہدہ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس لیے فوج میں ایک کرنل کو قیام گاہ کے طور پر ایک خوب صورت بنگلہ دیا جاتا ہے جو بہت سی سہولیات سے مزین ہوتا ہے۔مصنف اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہتا ہے میں بھی فوج میں کرنل کے عہدے پر فائز تھا اس لیے باقی کرنیلوں کی طرح مجھے بھی چھاؤنی میں رہائش کے لیے سی کلاس کا بنگلہ دیا گیا تھا لیکن میری خوش نصیبی یہ ہے کہ مجھے جو بنگلہ دیا گیا تھا وہ باقی کرنیلوں کو فراہم کردہ تمام  بنگلوں سے نمایاں حیثیت اور مقام رکھتا تھا۔

            مصنف اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کرتا ہے کہ مجھے کرنیلوں میں کوئی خاص امیتاز اور مقام حاصل نہیں تھا کیونکہ مجھ سے کافی زیادہ باصلاحیت اور تجربہ کار کرنیل وہاں موجود تھے اس کے باوجود بھی مجھے جو بنگلہ ملا وہ باقی کرنیلوں کے بنگلوں سے زیادہ شاہانہ تھا۔ 

یہ اللہ تعالیٰ کی دین تھی جسے مصنف فخر کے ساتھ بیان کر رہا تھا۔جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔


" اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے عطا فرماتا ہے"۔


             مصنف کہتا ہے کہ اس کے بنگلے کی خاص بات یہ تھی کہ وہاں رہنے والے پرانے خدمت گزار اس کے متعلق بتاتے تھے کہ یہ یادگار اور سب بنگلوں سے زیادہ خوب صورت اور منفرد بنگلہ انگریز دور حکومت میں کسی ولسن نامی انگریز افسر نے خاص طور پر اپنے لیے تعمیر کروایا تھا اسی وجہ سے یہاں سے گزرنے والا روڈ بھی اسی کے نام سے منسوب ہوکر ولسن روڈ کہلایا جاتا ہے۔


جماعت نہم اور دہم کی مزید ایسی تشریحات اور اہم  سوالات کےلیے وزٹ کریں۔

aufsurani.blogspot.com

پیراگراف نمبر8 خطوط غالب

                     03065976174            سبق:    خطوط غاؔلب               aufsurani.blogspot.com                                         ...