Friday, January 10, 2020

جماعت نہم اردو سبق" قدرایاز" تشریح پیراگراف نمبر4


سبق:  قدرایاز

پیراگراف نمبر4


اقتباس:

سلیم میاں جو ابھی..............اس کے ہاتھوں پلا تھا۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: قدر ایاز

مصنف کانام: کرنل محمد خان


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔


فارغ ہونا.......فراغت پانا، مصروفیت ختم ہونا

کرنیل زادے.......کرنیلوں کے بیٹے۔

ہمراہ......ساتھ

بےفکری....بعیرکسی پریشانی کے، بےغم ہوکر

بیڈمنٹن......ریکٹ،چھکا،شٹل یا چڑیا کی مدد سے کھیلا جانے والا ایک کھیل۔

سرشام......شام ہوتے ہی

جم جاتے......ٹھہر جاتے،ٹک جاتے

مجال..... جرآت

غیر.....بیگانہ

مشاہدہ......جانچ پرکھ، معائنہ

مخل ہونا......خلل ڈالنا،دخل اندازی کرنا،مداخلت کرنا

شریک ہونا.......شامل ہونا، شمولیت اختیار کرنا

تواضع.....خدمت گزاری، خاطر داری

خارج ہونا......نکلنا

انس.....محبت، لگاؤ، پیار

پلنا......نشوونما پانا، پرورش پانا


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" قدرایاز" کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہےاس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف بتاتا ہے کہ اس کا بیٹا سلیم میڑک کے امتحان کے بعد فراغت کی زندگی گزار رہا تھا۔وہ ہمارے خدمت گزار علی بخش کے ہاتھوں پلا تھا۔ایک بار علی بخش رونی صورت بنا کر سلیم کی شکایت لے کر میرے پاس آگیا۔


تشریح:

کرنل محمد خان  اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار ہیں۔ انھوں نے اپنی فوجی زندگی کے حوالے سے بہت سے مضامین لکھے۔ وہ اپنی تحریر میں  جس ماحول کی بھی تصویر کشی کرتے اسے پڑھنے والا خود کو اسی ماحول میں محسوس کرتا تھا۔" قدر ایاز" ان کی ایسی ہی تحریر ہے جس میں وہ دیہاتیوں کےسادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کرتے ہیں۔

        تشریح طلب اقتباس میں مصنف میڑک کے امتحان ہوجانےکےبعد سلیم میاں کی فراغت اور اس کے مشغلوں کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ جب میڑک کا امتحان دے چکا تو اسے مکمل فرصت اور فراغت مل گئی اور پڑھائی کی ذمّہ داری کا بوجھ اس کے سر سے اتر گیا اس لیے وہ دوسرے کرنیلوں کے صاحب زادوں کے ساتھ بےغم ہوکر سارا دن بیڈمنٹن کھیلتا تھا اور جب شام ہوجاتی تو اپنے دوستوں کے ساتھ  ٹیلی وژن دیکھتا رہتا تھا۔اس دوران کسی کو بھی اس کے کمرے میں داخل ہوکر اس کی سرگرمیوں میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی ایسی جرآت کرتاتھا کیونکہ وہ اس چیز کا بہت برا مناتا تھا۔

        مصنف کہتا ہے کہ علی بخش جوکہ ہمارا بوڑھا خدمت گزار تھا صرف وہی سلیم کے کمرے میں اس کی خاطر داری کی غرض سے آتا جاتا رہتا تھا۔اسے سلیم سے بہت لگاؤ اور پیار بھی تھا کیونکہ سلیم اسی کے ہاتھوں ہی پلا بڑھا تھا اور اس نے سلیم کی ہمیشہ خدمت کرکے اسے پالا پوسا تھا۔اس وجہ سے وہ سلیم سے انسیت اور چاہت کا رشتہ رکھتا تھا اور اس کے کمرے میں اس کی خاطر داری کی غرض سے آتا جاتا رہتا تھا۔   جیسا کہ کسی دانا کا قول ہے:


"انسان ایک ایسا شجر ہے جسے چاہت اور قربت کے موسم پروان چڑھاتے ہیں".

No comments:

Post a Comment

پیراگراف نمبر3 استنبول

                     03065976174              سبق:      استنبول               aufsurani.blogspot.com                                        ...