سبق : امتحان
پیراگراف نمبر3 تشریح
اقتباس:
میری سنیے کہ دو سال ..............بڑے بڑے وکیلوں کے کان کترے گا
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کا نام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت
خط کشیدہ الفاظ کے معانی
لا کلاس ...... وکالت کی کلاس
کورس..... نصاب
جھانک.....سرسری دیکھنا، چھپ کر دیکھنا
منشی........وکلا کا ملازم
لکچرار....... پڑھانے والا، سبق کا لکچر دینے والا۔
مستغرق....... مگن، مصروف،غرق
دشواری......مشکل
شریک ہونا.......شامل ہونا
مشغلہ...... شغل، شوق
فرق آنا...... کم ہونا، کمی ہونا
قبلہ........بزرگوار
کان کترنا........ مات دینا، شکست دینا
سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" امتحان" کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے کہ لوگ امتحان کے نام سے گھبراتے ہیں لیکن میرے اوپر امتحان کا رتی برابر بھی اثر نہیں پڑتا۔میں نے لاکلاس کا کورس دوستوں کے ساتھ بےفکر ٹہلتے ہوئے پورا کیا تھا اور اس مقصد کےلیے بوڑھے والدین کو دھوکا دینا بھی میرے لیے کوئی مشکل نہ بنا۔
تشریح:
مرزا فرحت اللہ بیگ کاشمار اردو کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پر لطف ہوتا ہے اور ان کی تحریر میں مزاح کی چاشنی موجود ہوتی یے۔" امتحان " ان کا لکھا گیا ایسا ہی مضمون ہے جس میں امتحان کے اثرات، اس کی اہمیت اور دوران امتحان کے حالات و واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف اپنی لا کلاس کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے دو سال میں وکیل بننے کےلیے" لا کلاس " کا کورس مکمل کیا مگر پڑھائی کی طرف بالکل بھی توجہ نہ دی۔ شام کو اپنے دوستوں کے ہمراہ چہل قدمی کےلیے نکل جاتا اور واپسی پر لا کلاس سے ہو کے آتا تھا ۔یعنی کلاس سے زیادہ توجہ دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے پر تھی۔ کلاس میں حاضری لگوانے کا مسئلہ بھی میرے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا کیونکہ وکلا اساتذہ کی مدد اور ان کے کام کاج کےلیے وہاں موجود منشی صاحب میرے دوست تھےاور لکچرار صاحب جب پڑھانے میں محو ہوتے تھے تو منشی صاحب کی مدد سے میں اپنی حاضری لگوا لیتا تھا۔میرا یہ کام بغیر کسی مشکل سے انجام پالیتا تھا۔
اب آپ حضرات بتائیں کہ لاکلاس میں توجہ سے بیٹھنے کی بجائے صرف جھانک آنے اور حاضری بھی لگ جانے سے میرے دوسرے مشاغل کو کیا حرف آسکتا تھا اس لیے میرے دوسرے مشاغل بھی جارہی رہے اور مشی صاحب کی بدولت حاضری بھی لگ جاتی تھی۔
والد محترم بھی اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ میرا بیٹا قانون کی تعلیم حاصل کر رہا ہے تو ایک وقت آئے گا جب یہ قانون کی ڈگری حاصل کرکے بڑے بڑے وکیلوں کا مقابلہ کرے گا اور انھیں اس میدان میں مات بھی دے گا مگر حقائق اس کے برعکس تھے۔
بقول شاعر
وائے خوش فہمی کہ پرواز یقیں سے بھی گئے
آسماں چھونے کی خواہش میں زمیں سے بھی گئے
Nice
ReplyDeleteبہت شکریہ بلاگ کو فالو کریں تاکہ مستقبل میں بھی مستفید ہوں۔
ReplyDeleteسنی ہم نے طوطی وبلبل کی باتیں
ReplyDeleteسنی ہم نے طوطی و بلبل کی باتیں
Deleteترا تذکرہ ہے تری گفت گو ہے
حوالہء شعر
نظم کا عنوان: نعت
شاعر کا نام: امیر مینائی
مفہوم: شاعر کہتا ہے کہ ہم نے باغوں میں طوطی اور بلبل کی باتیں سنیں تو اس میں بھی ہمیں حضوراکرمﷺ کی مدح سرائی ملتی ہے۔
تشریح:
"نعت" موضوعاتی نظم ہے جس میں حضوراکرمﷺ کی تعریف و توصیف، کمالات اور آپﷺ کی شان بیان کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے اور اس کی بنائی ہوئی تمام مخلوق نہ صرف حضوراکرمﷺ کی مدح سرائی کرتی ہے بلکہ آپﷺ کی ذات پر ہمیشہ درود و سلام بھی پڑھتے ہے۔ اردو ادب کے نامور شاعر امیرمینائی بھی حضوراکرمﷺ کی شان میں اپنی عقیدت کا نذرانہ پیش کرکے اپنی ادنیٰ سی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ حضوراکرمﷺ کی ذات ایسی ذات ہے جس کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے جائیں تب بھی آپﷺ کی تعریف کا معمولی سا بھی حق ادا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بقول شاعر:
تھکی ہے فکر رسا مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا مدح باقی ہے
تمام عمر لکھا مدح باقی ہے
تشریح طلب شعر میں شاعر حضور اکرمﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمام چرند پرند آپﷺ ذات کے بارے میں گفت گو کرتے ہیں اور آپﷺ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ باغوں میں جائیں تو چڑیوں کی چہک میں آپﷺ سے عقیدت نظر آتی ہے۔ طوطی اور بلبل کی باتیں سنیں تو وہ بھی ہمیں آپﷺ پر درود پڑھتے اور آپﷺ کی شان میں گنگناتے نظر آتے ہیں کیونکہ انھیں بھی پتا ہے کہ کائنات کی جو رونقیں انھیں میسر ہیں وہ سرکار دوعالم ﷺ کی ذات کے دم سے ملی ہوئی ہیں۔ اس لیے وہ اپنی گفت گو میں آپﷺ کی شان بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
اک باغ میں جب میں گیا
سب طوطیاں تھیں خوش نما
کہتی تھیں نعت مصطفیﷺ
بلغ العلیٰ بکمالہ