Popular Posts

Tuesday, October 27, 2020

پیراگراف نمبر3 تشریح سبق مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ


 سبق: مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ

پیراگراف نمبر3

اقتباس: 

فقیر تو یہ کہتا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے بدرجہا اچھی ہے۔

حوالہ متن:

سبق کا عنوان: مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ

مصنف کا نام: سجاد حیدر یلدرم

صنف:              افسانہ

ماخذ:            خیالستان

خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛

قصہ ۔۔۔۔ کہانی، واقعہ، ماجرا۔

خیالات ۔۔۔۔ خیال کی جمع، تصورات۔

خیرات ۔۔۔۔ صدقہ۔

مقابلہ ۔۔۔۔ ہمسری۔

تعجب ۔۔۔۔ حیرانی۔

امور ۔۔۔۔ امر کی جمع، کام۔

صحیح ۔۔۔۔ درست، ٹھیک۔

مفت خوری ۔۔۔۔ نکمی کھانا، بغیر محنت کے کھانا۔

جاہل ۔۔۔۔ گنوار۔

بدرجہا ۔۔۔۔ بہت زیادہ، حد درجہ۔

سیاق و سباق؛

تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ دلی کے چاندنی چوک میں موجود فقیر کی صدا کے متعلق مصنف کہتا ہے کہ وہ لوگوں مخاطب کرکے صدا لگا رہا تھا کہ میں آفت کا مارا سات بچوں کا باپ ہوں۔اپنے وطن جانا چاہتا ہوں۔ میں غریب الوطن ہوں اور میرا کوئی دوست نہیں۔ مصنف سوچتا ہے کہ جب یہ کہتا ہے کہ میرا کوئی دوست نہیں تو اسے مبارک باد دینی چاہیے کیونکہ اگر واقعی اس کا کوئی دوست نہیں تو یہ بہت خوش قسمت ہے۔

تشریح: 

          سجاد حیدر یلدرم اردو ادب کے نامور مصنف اور افسانہ نگار تھے۔ان کے افسانوں میں رومانیت کا رنگ غالب ہوتا ہے اور یہ انشائے لطیف کا بھی عمدہ نمونہ ہیں۔ ایسا ہی ان کا افسانہ "مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" ہے جس میں وہ اپنے مخلص دوستوں سے عاجز نظر آتے ہیں اور انھیں ہر صورت چھوڑ دینے کے درپے ہیں۔

           تشریح طلب اقتباس میں مصنف دلی کے چاندنی چوک میں موجود فقیر کے متعلق آگاہ کرتا ہے کہ اس نے جب لوگوں سے مدد کی غرض سے اپنی صدا بلند کی تو جن لوگوں پر فقیر کے بیان کردہ واقعے کا اثر ہوا تو انھوں نے اپنی استطاعت کے مطابق فقیر کی مدد کرنا شروع کر دی اور فقیر ان سے ملنے والی بھیک لے کر آگے بڑھتا چلا گیا۔

        مصنف کہتا ہے کہ اس موقع پر میرے دل میں کچھ تصورات نے جنم لیا اور میں نے اسی وقت اپنی حالت کا موازنہ فقیر کے ساتھ کرنا شروع کر دیا تو مجھے یہ جان کر بےحد حیرت ہوئی کہ کئی کاموں کے لحاظ سے فقیر مجھ سے بہتر تھا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اپنی محنت سے کماتا ہوں جبکہ وہ فقیر سارا دن دوسروں سے ملنے والی خیرات کےسہارے رہتا ہے اور محنت مشقت کیے بغیر مفت کا کھا پی کر اپنا دن گزارتا ہے۔ میں تعلیم یافتہ ہوں جبکہ وہ مکمل ان پڑھ گنوار ہے۔ میرا لباس اچھا اور صاف ستھرا ہوتا ہے جبکہ وہ فقیرانہ بھیس اپنائے ہوئے ہونے کی وجہ سے پٹھے پرانے کپڑوں میں تھا۔اس سب موازنے کو اگر مدِ نظر رکھا جائے تو میں خود کو اس سے کہیں بہتر پاتا ہوں مگر جب میں مزید اپنے اور فقیر کے متعلق غور کرتا ہوں تو فقیر کو خود سے کافی بہتر پاتا ہوں کیونکہ مجھ پر  یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس کی صحت قابلِ رشک ہے اور وہ بغیر محنت مشقت کے سب کچھ میسر آنے کی وجہ سے بےفکر رہتا ہے جبکہ میں دن بھر محنت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی گزر بسر کرنے کی فکر مندی میں اپنا دن رات گزارتا ہوں۔  جیسا کہ کہاوت ہے؛

" محنت کرے مرغی اور انڈا کھائے فقیر"۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...