Popular Posts

Sunday, October 11, 2020

پیراگراف نمبر2 تشریح سبق مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ


 سبق: مجھےمیرے دوستوں سے بچاؤ

پیراگراف 2
اقتباس:
    اے بھائی مسلمانو! خدا کےلیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری سنو، میں غریب الوطن ہوں۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ
مصنف کا نام:  سجاد حیدر یلدرم
صنف:                     افسانہ
ماخذ:                 خیالستان
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
بدنصیب ۔۔۔۔۔بری قسمت والا، بدقسمت۔
آفت ۔۔۔۔۔ مصیبت، تکلیف۔
آفت کا مارا ۔۔۔۔۔ مصبیت زدہ۔
محتاج ۔۔۔۔۔ ضرورت مند۔
غریب الوطن ۔۔۔۔۔ پردیسی، وطن سے دُور۔
مصیبت ۔۔۔۔۔ تکلیف۔
سیاق و سباق: 
                   تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف دلی کے چاندنی چوک میں موجود فقیر کی حالت زار اور اس کی مدد کےلیے بلند کی گئی صدا کے متعلق کہتا ہے کہ وہ درد بھری آواز میں لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا اور جن پر اس کےبیان کردہ قصے کا اثر ہوتا، ان کی خیرات لیتا ہوا آگے بڑھ جاتا۔
تشریح: 
             سجاد حیدر یلدرم اردو ادب کے نامور مصنف اور افسانہ نگار تھے۔ان کے افسانوں میں رومانیت کا رنگ غالب ہوتا ہے اور یہ انشائے لطیف کا بھی عمدہ نمونہ ہیں۔ ایسا ہی ان کا افسانہ "مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" ہے جس میں وہ اپنے مخلص دوستوں سے عاجز نظر آتے ہیں اور انھیں ہر صورت چھوڑ دینے کے درپے ہیں۔
                 تشریح طلب اقتباس میں مصنف چاندنی چوک میں موجود فقیر کی اس درد بھری صدا کو من و عن بیان کرتا ہے جسے وہ لوگوں کے سامنے دہرا رہا تھا۔ فقیر سب لوگوں کو مخاطب ہو کر کہتا کہ اے میرے مسلمان بھائیو ! آپ سب لوگ میری بات کو توجہ سے سنیں کیونکہ میں سخت مصیبت زدہ اور مفلوک الحال ہوں۔ میرے سات بچے ہیں جن کی ضرورت پوری کرنا مجھ غریب کی بس کی بات نہیں۔میں بےحد مفلس اور ضرورت مند ہوں حتیٰ کہ کھانے کو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسر آتی ہے۔ بقول نظیر اکبر الہٰ آبادی؛
   ؎ جب   آدمی   کے  حال   پہ  آتی   ہے  مفلسی
        کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی
                    میں اپنی مجبوری اور اپنی حاجت مندی ہر ایک کے سامنے بیان کر رہا ہوں کیونکہ میں مجبور اور بےبس ہوں۔ میں آپ لوگوں سے بھیک نہیں مانگ رہا اور نہ کسی قسم کی خیرات مانگ رہا ہوں اور نہ ہی بھیک مانگنے کا مجھے شوق ہے۔ میں صرف اپنی مصیبت آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ میں پردیسی ہوں۔ اپنے وطن اور اپنے گھر سے بچھڑا ہوا ہوں۔ وطن اور گھر سے دور یہاں مارا مارا پھر رہا ہوں۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے؛
" دولت ہو تو پردیس میں بھی دیس ہے اور مفلسی ہوتو دیس میں بھی پردیس ہے"۔
میں غربت اور آفت کا مارا مسافر ہوں اور میرا یہاں کوئی دوست بھی نہیں جو میری مدد کرے۔جیسا کہ حضرت علیؓ کا فرمان ہے؛
" غریب وہ نہیں جس کے پاس دولت نہیں بلکہ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں"۔
             فقیر اپنی التجا کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہتا ہے کہ میں اپنے وطن جانا چاہتا ہوں مگر کوئی میری فریاد سننے اور  میری مدد کرنے کو تیار نہیں اور کوئی ایسا نہیں جو مجھ بےبس کی بےبسی پر ترس کھا کر مجھے اپنے وطن پہنچانے میں میری مدد کرے۔ میں بےبس اپنے وطن سے دور ہوں۔ بقول شاعر؛
    ؎ دشمن کو بھی اللہ چُھڑائے نہ وطن سے
        جانے وہی بلبل جو بچھڑ جائے چمن سے

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...